حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق میں زیر تحصیل حجۃ الاسلام سید عبداللہ عابدی، مولانا حسن عباس قبلہ فطرت اعلی اللہ مقامہ کا سانحہ ارتحال عالم تشیع خصوصا برصغیر کے لیے ایک دردناک سانحہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرحوم علم و ادب کا وہ درخشاں ستارہ تھے جن کے لیے پورے یقین کے ساتھ موت العالم موت العالم کی صدایں بلند ھورھی ھیں۔
مولانا عبداللہ عابدی مرحوم فطرت صاحب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ تعلیمات اہلبیت علیہم السلام کی ھمہ جہت نشرواشاعت انکا خاصہ تھا ایسی شفیق و ملنسار شخصیت کہ علمی حلقوں کی فضا سوگوار ہے۔ ادیب،شاعر ،عالم اور ایک ایسا مربی جو تشنہ لبوں کو سیراب کرنے والا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کا سانحہ ارتحال عموما سب کے لیے لیکن بالخصوص علمی دنیا کیلئے بہت بڑا خسارہ ہے، اس خلا کو پر کرنا بہت مشکل ہوگا۔ آج ہم اپنے انتہائی مشفق و مربی استاذ سے محروم ہوگئے، اس غمناک گھڑی میں ہر آنکھ اشکبار۔ دل غمگین،اور لبوں پر یہ شعر ھے
اب انہیں ڈھونڈو چراغِ رخِ زیبا لے کر
یوں تو موت کی خبر کسی بھی انسان سے متعلق ہو، وہ عزیز و اقارب ، دوست و احباب ۔شاگرد اور متعلقین کے لیے رلانے والی ہی ہوتی ہے اور جانے والا جب گھنی چھاؤں والا ہو، جس کی مجلسیں اکسیرگر اور صحبتیں کیمیا اثر ہوں،تواس کی موت کی خبر جس قدر وحشت اثر ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ کچھ وہی لگا سکتے ہیں جنہیں ان کا قرب حاصل ھوا ھو۔
علم و فضل اور زبان وادب میں فائقیت کے علاوہ استاد مرحوم کی ایک بڑی خوبی "احساسِ مروت " اور "خورد نوازی "بھی تھی، ان سے ملنے والا خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، مل کر لوٹتا تو یوں محسوس کرتا کہ کوئی "گنجِ گراں مایہ "ساتھ لے کر لوٹا ہے-
آخر میں کہا کہ ان کی شخصیت میں ایک عجیب جاذبیت تھی، وہ حد درجہ منکسر المزاج تھے اور علمی وادبی حلقہ میں انھیں نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا
شاید مستقبل قریب میں اس کی تلافی ممکن نہیں- الله رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت ا میں درجات بلند کرے اور مرحوم کوان کے اولیاء کے ساتھ محشورفرمائےاورفرزندارجمند فرحت عباس مع متعلقين كوصبرجميل عنايت فرمائے آمین
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبهی آئے ہیں مرنے کے لئے-